ایک غاصب ریاست کا وجود

شکوک و مشکلات کے نرغے میں

                 از:          محمد مونس قاسمی ، لکھیم پور کھیری

 

یہود نے جنگ عظیم دوم کے دوران جرمنی کے ہاتھوں ۶۰/ لاکھ یہودیوں کے قتل عام کے افسانے گھڑکر دنیا کو فریب دیتے ہوئے مظلومیت کی داستانیں سنائیں اور پھر فلسطین کا رخ کرتے ہوئے اس پر قبضہ کرلیا۔ جب کہ فلسطینی باشندوں کے ساتھ ہاگانہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں جو ظلم و ستم روا رکھا گیا، اور دیریاسین سمیت صابرا و شتیلا قتل عام کی جو حشر خیز داستانیں رقم کی گئیں انھیں طاق نسیاں کی نذر کردیا گیا۔ ایک اسرائیلی موٴرخ ایلان پاپ (ILANPAPPE) نے جو ۲۰۰۷/ تک حیفا یونیورسٹی میں پروفیسر رہے ہیں، اپنی ایک کتاب فلسطینیوں کا نسلی صفایا (The Ethnic Cleanring of Palestine) میں لکھتے ہیں: ”دسمبر ۱۹۴۷/ سے جنوری ۱۹۴۹/ تک فلسطینیوں کا مسلسل ۳۱ بار قتل عام ہوا۔ یہودیوں نے فلسطینیوں کی ۴۱۸ بستیاں صفحہٴ ہستی سے مٹادیں۔

انسانی حقوق کی بدترین پامالی اور فساد وتخریب کے سائے میں کہنے کو تو اسرائیل وجود میں آگیا اور اس نے اپنے لیے تمام وسائل مجتمع کرلیے۔ عالمی طاقتیں آج اس کی پشت پر کھڑی ہیں۔ تاہم غاصب صہیونی ریاست ۶۰ سال گزرنے کے باوجود خوف وہراس کی نفسیات کی اس حد تک شکار ہے کہ سڑکوں اور گلیوں پر جگہ جگہ کلوز سرکٹ کیمرے اور میٹل ڈی ٹیکلز نصب ہیں۔ ۲۰۰۶/ سے مغربی کنارے پر القدس کے ساتھ ساتھ دیوار برلن کے نمونے پر ایک دیوار بنائی جارہی ہے۔ دیوار برلن ۱۵۵ کلومیٹر طویل تھی۔ جبکہ مغربی کنارے کی دیوار ایک ہزار کلو میٹر طویل اور ۸/میٹر اونچی ہوگی۔ اس کے ساتھ ایک دفاعی سڑک اور دفاعی ٹاورز تعمیر ہوں گے۔ اس فصیل میں ایسے الیکٹرانک دروازوں کا انتظام کیاگیا ہے جو کسی معدنی چیز کی نشاندہی کردیتے ہیں۔ امریکا میں اس کا بھی اعلان کیاگیاکہ فصیل کے اوپری حصے میں ایسے آلات نصب کیے جائیں گے اور فوجی غبارے چھوڑے جائیں گے جن میں پوری فصیل کو چیک کرنے کے لیے کیمرے لگے ہوں گے۔ اس نگرانی میں وہ ۲۰۶/ ہیلی کاپٹر جہاز بھی شامل ہیں جوامریکا،اسرائیل کو دے گا۔ اس کے نتیجے میں مسلمان ایک بڑے جیل میں بند ہوکر رہ جائیں گے۔

بعض خام خیال لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس دیوار کے قیام سے فلسطینی حدود کی تعیین ہوجائے گی؛ لیکن انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ شمعون پیریز نے اس خام خیالی کا بھی کوئی موقع نہیں چھوڑا، اس نے کہا تھا: ”کوئی فلسطینی حکومت نہیں ہوگی؛ یہ فصیل کسی حکومت کی حدود کی نمائندگی نہیں کرتی۔“ (اخبار العالم الیوم، ۲/۳/۱۹۹۹)

پھر آخر یہ کس بات کی نمائندگی کرتی ہے؟ تورات کی شرح کتاب ”قابلاہ“ میں کہا گیا ہے: قدس کی صفت ”شنحیناہ“ ہے، یعنی ایسی بادشاہت جو پورے عالم پر حکمرانی کرے گی اور اس کے ارد گرد اونچی فصیلیں ہوں گی تاکہ ظلمت کی طاقتیں وہاں نہ پہنچ سکیں، اس کی دیواریں بلند ہوں گی تاکہ دنیا میں توازن قائم ہوسکے۔

غرض کہ قدس شہر کو فصیلوں سے گھیرنے اوراسے قلعہ بند کرنے اور پھر اس کی آڑ میں بزدلانہ جنگ کرنے کا ارادہ یہودیوں کی اسی پیچیدہ نفسیاتی مزاج کی نمائندگی کرتا ہے، جس کے بارے میں قرآن میں فرمایاگیاہے: لا یقاتلونکم جمیعا الا فی قری محصنة او من وراء جدر ”وہ تم سے جنگ نہیں کریں گے مگر قلعہ بند بستیوں میں اور دیواروں اور فصیلوں کے پیچھے سے (ہزارئہ سوم کی قیامت صغریٰ)

آج ۹۰ فیصد فلسطین پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے۔ وہ علاقے کی ایک بڑی ایٹمی طاقت بن چکا ہے (جیساکہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے اسرائیل کے پاس ۱۵۰/ ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کا انکشاف کیا تھا) رپورٹ کے مطابق صحراء النقب میں واقع اسرائیل کا ڈیمونہ جوہری ری ایکٹر، فرانس کے تکنیکی تعاون سے ۱۹۶۳/ میں مکمل ہوا تھا۔ ان میں وہ فرانسیسی، مفرور جرمن اوریہودی سائنس داں شامل تھے جو ایٹم بم بنانے والے امریکی مین ہٹن پروجیکٹ میں کام کرچکے تھے۔ اسرائیل ہزاروں ٹن مہلک جوہری فضلہ غزہ پٹی میں کم گہرائی پر دفن کرتا رہا ہے۔ ڈیمونہ ری ایکٹر چرنوبل پلانٹ کی طرح بوسیدہ ہوچکا ہے۔ بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم کے مطابق اسرائیل کے جوہری ری ایکٹر میں دراڑیں پڑچکی ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ کر مصر سے اردن تک تباہی پھیلاسکتا ہے۔

اس وقت اسرائیل کی مجموعی آبادی ۷۱ لاکھ سے زائد ہے۔ اس میں یہودیوں کی تعداد ۵۴ لاکھ ہے۔ جب کہ جولان اور القدس سمیت ہر چہار طرف وہ اپنی نوآبادیات قائم کررہا ہے۔ اسرائیل کو امریکہ سے ہر سال ایک ملین ڈالر سے زائد معاشی امداد مل رہی ہے۔ اربوں ڈالر پر مشتمل امریکی یہودیوں سے ملنے والے فنڈاس کے علاوہ ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق ۲۰۰۶ میں اسرائیل کی خام قومی آمدنی ۸۹۵/ ارب ڈالر تھی۔ اسی ذریعے کے مطابق ۲۰۰۷ میں اسرائیل کی فی کس آمدنی ۷۶۷،۳۱/ ڈالر سالانہ تک بڑھ چکی تھی۔ دوسری طرف فلسطینی ہیں جن کی معیشت بدترین دور سے گذررہی ہے۔ مغربی کنارے کی نصف فلسطینی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جب کہ غزہ کی پوری ۸۰ فیصد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اسرائیل، فلسطینیوں کی نقل وحرکت روکنے کے لیے مسلسل چیک پوسٹیں قائم کررہا ہے۔ مارچ ۲۰۰۸ تک مغربی کنارے میں ۵۴۶ چیک پوسٹیں بن چکی تھیں۔ فلسطینیوں کو پانی جیسی بنیادی اور اہم چیز کا حصول مشکلات سے گھرا ہوا ہے۔ کیونکہ اسرائیل پانی کے نئے سرچشموں کے ۸۰ فیصد پر قابض ہے جو سالانہ تقریباً ۶۵۰ ملین مربع میٹر ہوتا ہے اور ۲۰ فی صد کو ہر مربع میٹر ایک ڈالر کے بدلے فلسطینی عوام کو فروخت کرتا ہے، یعنی مغربی حصہ اور غزہ کے پانی کے اسٹاک پر اس کا قبضہ ہے۔

فلسطینیوں کے خون سے سرخ اسرائیل، نہایت بے شرمی کے ساتھ اپنی ۶۰ ویں سالگرہ منارہا ہے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس سال گرہ میں صدومی بھی حصہ لے رہے ہیں، کیوں کہ صدومیت، یہودی کلچر کا تاریخی حصہ ہے۔ اس سلسلے میں اگست میں عالمی فخر (World Pride) کے نام سے ہم جنس پرستوں کی پریڈ مشرقی یروشلم میں ہوگی۔ کئی یہودی راہبوں، عیسائی پادریوں اور مسلم علماء نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ وہ علانیہ گناہ کا مظاہرہ کرکے خدا کے غضب کو نہ بھڑکائیں۔

اسرائیل، جو ایک ناجائز وجود ہے، اس کا حکمراں طبقہ باوجود مال ودولت کی ریل پیل کے مالی واخلاقی بدعنوانی میں ملوث ہے۔ اسرائیلی صدر موشے کتساف پر صدارتی دفتر کی خواتین سے زیادتی کا، موجودہ وزیراعظم اولمرٹ پر مالی بدعنوانی اوربدعنوان کابینہ بنانے کا اورنائب وزیر اعظم لیبرمین پر خواتین کو چھیڑنے کا الزام ہے۔ پولیس ان کیسوں کی تحقیقات میں مصروف ہے۔ نومبر ۲۰۰۷ میں ۲۰ سے زائد مقامات پر چھاپے مارکر سرکاری ریکارڈ قبضے میں لیے گئے، ان میں وزارت صحت وتجارت شامل تھی۔

غاصب صہیونی ریاست اپنی ساٹھویں سال گرہ بڑی دھوم دھام سے منارہی ہے۔ جب کہ خود اسرائیل کی رائے عامہ اور ممتاز طبقے میں اسرائیل کی بقاء کے امکان کے بارے میں شکوک و شبہات کا شدید احساس پیدا ہوگیا ہے۔ اس کا اندازہ صہیونی وزیراعظم یہود اولمرٹ کا حالیہ بیان، جس میں انھوں نے کہا ہے: ”اگر وہ دن آتا ہے جب دوریاستی حل ناکام ہوجاتا ہے اور ہمیں ووٹنگ کے مساوی حقوق کے لیے جنوبی افریقہ کے طرز کی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو اسرائیلی ریاست ختم ہوجائے گی۔“ (دعوت، ۲۵/مئی ۲۰۰۸) نیز متعدد اسرائیلی ریٹائرڈ جنرلوں کے دستخط شدہ میمورنڈم بھی اس کی غمازی کرتا ہے جو انھوں نے حکومت کے ارباب نظم ونسق کو اس بات سے ہوشیار کرنے کے لیے بھیجے ہیں کہ اگر عربوں کے ساتھ تنازعہ کے فائنل تصفیے کے قطعی معاہدات مکمل نہیں ہوئے تو اسرائیل کو صرف زوال وخاتمے کا انتظار کرنا چاہیے۔

دوسرے یہ کہ ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی اسرائیل، صہیونی تحریک کے مرکزی نشانے کو حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ یعنی دنیا کے یہودیوں کو امن وامان کی پناہ گاہ اسرائیل کی طرف ہجرت کی اہمیت سے مطمئن کرنا، اس کے برعکس اب تو یہ ہورہا ہے کہ اسرائیل کی طرف ہجرت کرنے والوں کے مقابلے میں ان لوگوں کا تناسب بڑھ گیا ہے جو اسرائیل چھوڑ کر دوسرے ممالک واپس جارہے ہیں۔ یعنی فوجی طاقت اور اقتصادی استحکام بھی دنیا کے یہودیوں کو اسرائیل کی طرف ہجرت کرنے اور جو وہاں پہنچ چکے ہیں ان کو وہاں مستقل بود و باش اختیار کرنے پر مطمئن نہ کرسکا۔ رپورٹیں تو یہاں تک ہیں کہ ۷ لاکھ یہودی اسرائیل چھوڑ کر جاچکے ہیں اور واپس آنا نہیں چاہتے۔ ساتھ ہی یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ اگرچہ اسرائیل کے یہودیوں میں ”دین“ ایک اہم مشترک صفت ہے، لیکن ان کے باہم برسرپیکار دینی رجحانات میں شدید ترین آویزش ہے۔ حتی کہ لسانی وحدت بھی مفقود ہے۔ عبرانی زبان تنہا سب پر راج کرنے کی حیثیت سے ناکام رہی۔ وہاں پورے کے پورے ایسے رہائشی گروہ ہیں جو عبرانی زبان نہیں بولتے، جیسے کہ روسی مہاجر جن کا شمار سب سے بڑے نسلی مجموعے میں ہوتا ہے۔ وہ صرف روسی زبان ہی بولتے ہیں۔ ان کا اپنا الگ تعلیمی نظام ہے اور ان کے اخبارات ووسائل ابلاغ روسی زبان ہی استعمال کرتے ہیں۔

اسرائیل کے مختلف گروہوں میں نسلی امتیازات موجود ہیں۔ اور سرکاری نظام اسی بنیاد پر ان کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ چنانچہ ”فلاشا“ یہودی جن کو ایتھوپیا سے لایاگیا تھا، ان کو اسرائیلی معاشرے میں قبول نہ کرنے کی وجہ سے ایسی مشکلات کا سامنا ہے کہ وہ خودکشی پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں اسرائیل ہی وہ تنہا مملکت ہے جس کو اپنے ”وجود کے جواز“ کے بحران کا سامنا ہے، اس لیے کہ وہ دوسری قوم کی غصب شدہ زمین پر قائم ہوئی ہے۔ چنانچہ یہ یقینی ہے کہ وجود کے جواز کے مشاکل صہیونی منصوبے کا تصفیہ کرکے چھوڑیں گے۔ (بحوالہ ہفت روزہ الامان بیروت، ۱۱/اپریل ۲۰۰۸)

***

________________

ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 10-11 ، جلد : 92 ذيقعده 1429 ھ مطابق اكتوبر - نومبر 2008ء